نئے سال کی ایک چھوٹی ریزولوشن

اکثر ہم نئے سال پر بڑی بڑی ریزولوشنز بناتے ہیں۔ میں جِم جاؤں گا، میں اتنا وزن گھٹا لوں گا، روزانہ سیر کروں گا وغیرہ وغیرہ جو احساسِ کمتری میں ہمیں زیادہ دھکیلتی ہیں اور حوصلہ افزائی کم کرتی ہیں۔ ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا راز تو میں آپ کو کسی اور وقت بتاؤں گا، لیکن آج سوچا کہ ایک چھوٹی ریزولوشن کی افادیت بھی گِنوا دینی چاہیے۔

”میں جس کسی سے ملوں گا تو اس کو اس کی شخصیت کی کوئی اچھی بات ضرور بتاؤں گا۔“ یا اگر اس کو نہیں بتا سکتا تو کم از کم اپنے دل میں ہی کہہ لوں گا۔ اس کے بہت سے فائدے ہیں، ایک تو آپ کو اُس کی شخصیت کے نئے پہلو دیکھنے کو ملیں گے، دوسرے باہمی تعلق بہتر ہو گا اور سب سے ضروری یہ کہ حقوق العباد کے حوالے سے آپ کی اخرت بھی سنورے گی۔

اِس پر ممتاز مفتی کا ”تلاش“ میں بیان کیا ہوا ایک قصہ یاد آگیا۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر اُن کا اور اُن کی بیگم کا انٹرویو لے رہے تھے جب مسز ممتاز مفتی نے اپنے میاں پرسخت نکتہ چینی شروع کر دی۔ ایڈیٹر صاحب نے پوچھا کہ ممتاز صاحب میں کوئی تو خوبی ہو گی جس پر وہ بولیں ”اگرکوئی ہوتی تو میں آپ سے کیوں چُھپاتی بھلا!“

بس ہم بھی اکثر ایسے ہی دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں چاہے نا دانستہ طور پر ہی سہی۔ ”وہ دیکھو وہ گنجا ہو گیا“، ”اُس کا پیٹ بہت نکل آیا“، ”یہ کیا بَونگی ماری آپ نے“، اور اس طرح کی بہت سی باتیں کر کے دوسروں کا دل بھی دُکھا دیتے ہیں۔ اکثر لوگ آپ کو نہیں بتائیں گے کہ انہوں نے کیا محسوس کیا۔ میرے چہرے سے بھی آپ کو کبھی نہیں پتا چلے گا کہ مجھے آپ کی بات بُری لگی۔ بس میں دل میں یہ ضرور سوچوں گا کہ آپ چاند پر کیوں تھوک رہے ہیں، کہیں آپ کا لعاب دہن آپ کے مُکھڑے شریف پر ہی واپس لینڈ نہ کر جائے۔ ویسے وہ مرہم کا کام بھی دیتا ہے۔

خیر میرا خیال ہے ایک ریزولوشن تو ہمیں یہ کرنی چاہیے کہ کسی کے بارے میں ہر نیگیٹو بات کرنے سے پہلے ایک پوزیٹو بات کرنی ضروری ہے ورنہ منہ بند۔ اور اس کی گاڑی یا مال یا بچوں وغیرہ کے بارے میں نہیں، اس کی شخصیت کے بارے میں۔ یہ ہمیں اس بندے کی شخصیت کے اچھے پہلو دیکھنے پر مجبور کر دے گا۔ ویسے میں آپ سے کہوں گا کہہ اگر آپ یہ ریزولوشن بنا لیں کہ سِرے سے کوئی نیگیٹو بات کرنی ہی نہیں تو آپ کی کیا ہی بات ہے لیکن پھر وہ ایک بڑی ریزولوشن بن جائے گی اور باقی ریزولیوشنز کی طرح وہ بھی سوا تین ہفتے بعد خلاص۔

آپ کِسی سے بھی ملاقات سے پہلے تھوڑا سا سوچ لیں کہ کیا اچھی بات کہی جا سکتی ہے۔ یہ آسان ہو جاتا ہے اگر آپ ان کے کسی عمل کے متعلق کچھ کہنے کی کوشش کریں مثلاً ”آپ نے پچھلی دفعہ ایک زبردست آئیڈیا دیا تھا، میرا بڑا فائدہ ہوا، اس کا شکریہ“ یا ”آپ نے کتاب بھیجی، آپ کی فراخ دلی سر آنکھوں پر“ وغیرہ۔ اور ان کو اپنے سٹائل اور لینگویج میں کہیں تا کہ جینوئن بات ہو اور آپ کا مذاق بھی نہ اڑے۔

لیکن اگر آپ کو بھی مسز ممتاز مفتی کی طرح کسی شخص کی کوئی بھی خوبی نہ ملے تو کسی مشترکہ دوست یا رشتے دار سے خفیہ طریقے سے دریافت کرلینا چاہیے۔ شاید آپ کی بھی آنکھیں اُس شخصیت کے بارے میں کھل جائیں۔