دیسی دین کا ایک سنگین مسئلہ

جس طرح کچھ دیسی مرغے ہوتے ہیں، اس ہی طرح کچھ دیسی والدین ہوتے ہیں۔ دیسی مرغے ہر جگہ اپنی چونچ مارتے ہیں۔۔۔ آگے کا جملہ کہنے کی ضرورت نہیں، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

اس کی ایک مثال کسی نے یوں دی کہ بچہ اگر چرانوے نمبر لے کر گھر آئے اور بڑی خوشی سے بتائے تو آگے سے مبارک دینے کے یا خوش ہونے کے بجائے سوال آتا ہے کہ باقی چھ نمبر کہاں گئے۔ تعریف کرنے سے کہیں سر پر ہی نہ چڑھ جائے۔ ویسے میں نے آج تک کوئی بچہ سر پر چڑھا ہوا تو نہیں دیکھا البتہ کاندھے پر چڑھا ہوا ضرور دیکھا ہے۔ وہ بھی اکثر ابو جی ہی چڑھاتے ہیں ورنہ کسی کی یہ مجال۔

اگر آپ زیادہ خوش ہو جائیں تو ”ہنسنے کی کیا بات ہے، جاؤ ہوم ورک کرو۔“ اگر اداس ہو جائیں تو ”یہ منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے۔“ بس یہی دیسی پن دین میں بھی چلتا ہے۔ ”نماز اتنی تیز کیوں پڑھ رہے ہو قبول نہیں ہوگی۔“ یہ تو شاید فرشتوں کو بھی نہیں معلوم کہ ارد گرد کے لوگ نماز قبول کرواتے ہیں۔ اگر روزے میں کچھ ایسا کہہ دیں جو دوسروں کو پسند نہ ہو تو روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی شاید روزے کو نہیں پتا تھی کہ وہ اب مکروہ کی کیٹگری میں شمار ہونے لگا ہے۔

لیکن اس کا اگلا لیول ہے دین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ دیسی والدین کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ امی ابو کی بات نہ مانیں تو اللّٰہ میاں ناراض ہو جاتے ہیں۔ اگر امی سے چھپ کر کچن میں کچھ کھا لیں تو گناہ ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنا غلط بات ہے۔ یہ آخری جملہ ٹھیک ہے۔ والدین کو اس جملے کو مدنظر رکھ کر اپنے اقوال زریں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ہمیں اتنا ڈرایا جاتا ہے کہ بچپن میں ہی ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ ہم جہنم میں جائیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ دین کے لیے کچھ بھی کرنے کا فائدہ نہیں۔ ایک نماز پڑھ کر ہم یہ نہیں سوچتے کہ اللّٰہ کا شکر ہے ایک پڑھ لی، اس سے قریب ہونے کی کوشش کی ہے اور وہ اس کا اجر دے گا۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ چار نہیں پڑھیں تو فائدہ ہی کوئی نہیں۔ جب جانا ہی جہنم میں ہے تو ایک بھی پڑھنے کا کیا فائدہ۔

یہ باتیں ہم اس ہستی کے بارے میں کہتے ہیں جو اپنی کتاب میں اپنا تعرف اپنے آپ کو رحمان اور رحیم کہہ کر کرواتا ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ اس سے زیادہ رحمت کسی اور میں پائی جا ہی نہیں سکتی۔ یعنی جتنی جان کی بازی ماں باپ لگا سکتے ہیں اپنی اولاد کے لیے وہ تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔

تو جب نماز پڑھیں، اس سے غرض نہیں کہ کب آپ کی توجہ کسی دوسری طرف چلی گئی۔ اس سے غرض ہے کہ آپ نے اللّٰہ کے لیے نماز پڑھی۔ بس جب احساس ہو کہ توجہ کسی اور طرف چلی گئی ہے تو اس وقت واپس لے آئیں۔ سوچیں کہ آپ اس کے سامنے کھڑے ہیں، کیسے اس کے آگے جھک رہے ہیں، کیسے آپ کے پاؤں اس کی پاک زمین کو چھو رہے ہیں، کیسے ہم ایک چھوٹی سی ہستی اس کی اتنی وسیع کائنات میں اس سے راہ راست پر چلنے کی دعا مانگ رہے ہیں۔ یہ خیالات آپ کو واپس نماز کی اور اللّٰہ کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ بس آہستہ آہستہ پروگریس کرتے رہیں، اللّٰہ سے جتنا تعلق بنے گا اتنا ہی دین بھی آسان ہونے لگے گا۔ ہماری کوشش کا بھی بہت اجر ہے اور وہ کرتے رہنی چاہیے۔

اس ہی طرح روزے میں کسی سے نادانستہ طور پر جھگڑا ہو گیا تو یاد رکھیں اللّٰہ روزے کا اجر دے گا۔ اپنی غلطی ہو تو معافی مانگ لیں اور روزے کو اللّٰہ کی خاطر بہتر کرنے کی کوشش کر لیں۔ لیکن وہ آپ کو آپ کی محنت کا اجر ضرور دے گا، وہ عادل بھی ہے، کسی کا حق نہیں لے گا۔

اپنا تعلق اللّٰہ سے مثبت بنیاد پر قائم کریں۔ اس سے رشتہ جوڑیں کہ آخرت کی طرف ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بڑھ رہے ہیں۔ وہ چاہتا ہے ہم کامیاب ہوں۔ دیسی عوام کو شاید یہ سمجھ نہیں آتا۔ ان کو ہر بات پر لگتا ہے کہ ہم جہنّم میں ہی جائیں گے۔ یہ ایک خاص دیسی مسئلہ لگتا ہے مجھے۔ اس کو تعلیم بالغان ڈرامے میں بڑا اچھا پیش کیا گیا۔ ملاحظہ ہو:

آخرت کو دنیا کے اوپر ترجیح دینا

رمضان مبارک۔ سوره نازعات میں یوم قیامہ کے بارے میں بتاتے ہوئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
”پس جس کسی نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، تو دوزخ اس کا ٹھکانا ہوگا۔ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو جنت اس کا ٹکھانا ہوگا۔“

اس کو مولانا وحید الدین خان نے یوں سمجھایا ہے: ”آدمی دو چیزوں کے درمیان ہے۔ ایک موجودہ دنیا جو سامنے ہے۔ اور دوسری آخرت کی دنیا جو غیب میں ہے۔ آدمی کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دے۔ مگر یہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو اپنے نفس کی خواہشوں پر کنٹرول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔“

کچھ چیزیں تو واضح ہیں مثلا نماز، روزہ، اور دوسری عبادات۔ اس کے علاوہ حقوق العباد بھی ظاہر ہیں کیوں کہ ان کا ذکر بھی قرآن اور حدیث دونوں میں ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی لگتا ہے یہ آیات ہمارے دل کی کیفیت کے بارے میں بھی کچھ کہ رہی ہیں۔ اور یہ کیفیت دوسروں کو نظر نہیں آتی۔ نہ ہی آپ کسی اور کے دل کی کیفیت کو جان سکتے ہیں۔

مثلا ایک ریڑھی والا بھی ہو سکتا ہے آخرت کا خیال دل میں لے کر گھر سے نکلا ہو کہ میں رزق حلال کماؤں گا، اپنے بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کروں گا کیوں کہ یہ میرا باپ اور میاں ہونے کے ناتے فرض ہے۔ آخر سب سے بڑا حق گھر والوں کا ہی ہے۔ ایسے میں اس کے سامنے ایک گاہک آتا ہے اور ایک تھوڑا سا خراب پھل اپنے لفافے میں ڈال لیتا ہے۔ وہ چاہے تو بتا سکتا ہے اور چاہے تو چپ رہ سکتا ہے۔ ایسے میں وہ جو فیصلہ بھی کرے، اصل بات یہ ہے کہ اس کے دل نے کیا آخرت کو ترجیح دی یا دنیا کو۔ وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ پھل گزارے لائق استعمال ہو سکتا ہے اور گاہک نے دیکھ کر ہی ڈالا ہے، اگر نہ بکا تو اللّٰہ کا رزق ضائع ہو جائے گا۔ اور وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ پھل کسی قابل نہیں پر اب ریڑھی کامیاب کرنی ہو تو سب چلتا ہے۔ ان دونوں سوچوں کے بیچ فرق ہے، اور شاید یہ آیات یہ فرق ہی بتا رہی ہیں۔

چاہے آپ پروفیسر ہوں، ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں، ویب ڈیزائنر ہوں، سافٹ ویئر ٹیسٹر ہوں، کوئی بیکری چلاتے ہوں، آن لائن اپنا کاروبار کرتے ہوں، اصل سوال یہ ہے کہ کام کرتے وقت، دوسروں سے ملتے وقت، کوئی بہت مشکل مسئلہ حل کرتے وقت، آپ کے دل میں آخرت ہے یا دنیا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہ رہا کہ اپنا حق کھودیں۔

ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو ان کا ظاہری روپ دیکھ کر جج کیا جاتا ہے۔ اس نے کیسے کپڑے پہنے، کتنی نمازیں پڑھتا نظر آتا ہے، داڑھی کیسی ہے، سر پر دوپٹتا لیتی ہے کہ نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میرا خیال ہے کہ اللّٰہ سے قربت حاصل کرنے کے لیے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہم اللّٰہ کے قریب ہو جائیں اور دل میں اس کا احساس رہے۔ اور ہر موڑ پر ہم آخرت کو سوچ کر فیصلہ کریں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دنیا چھوڑ دی جائے، یا اپنے منہ کا ڈیزائن بدل دیں، یا اپنے کردار میں کوئی مصنوعی ٹرانسفورمیشن لے آئین۔ یہ سب آپ کو سوسائٹی بتاتی ہے۔ پر اس رمضان آپ الله سے بس تعلق جوڑنے کو نمبر ون رکھیں۔

سوره فاتحہ پہلے سپارے میں کیوں نہیں ہے؟

پہلا سپارہ الم ہے جو سورہ بقرہ کی پہلی آیت سے شروع ہوتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سورہ فاتحہ کس سپارے میں ہے؟ اور اگر کسی بھی سپارے میں نہیں ہے تو کیوں نہیں؟

سورہ فاتحہ حقیقتاً کسی سپارے میں بھی نہیں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللّٰہ تعالٰی سے ایک دعا ہے جس میں اِس دنیا اور آخرت کے خالق سے دعا مانگی جاتی ہے کہ ہمیں ہدایت پر چلا اور آخرت میں کامیاب ہونے کی ریسپی بتا۔ اور ہمیں اِس دعا کی اتنی ضرورت ہے کہ ہم ہر نماز میں یہ دعا کئی دفعہ مانگتے ہیں۔ ہم سے پہلے نبی اور صحابہ کرام بھی یہی کرتے تھے!

پھر تیس کے تیس سپارے اس دعا کا جواب ہیں۔ وہ اللّٰہ تعالٰی کا ہم سے خطاب ہے جس میں بہت سے موضوع مختلف پہلوؤں سے سمجھائے جاتے ہیں۔ اور ہم ان سورتوں کی آیات نماز میں بھی فاتحہ کے بعد پڑھتے ہیں یعنی نماز میں بھی دعا ہے اور پھر تیس سپاروں میں سے جواب۔ اور پھر ہم اللّٰہ کے سامنے جھک جاتے ہیں۔

یہ نماز پر کانسنٹریٹ کرنے کا بھی اچھا طریقہ ہے کہ انسان سمجھے کہ وہ اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہے اور فاتحہ میں دعا کر رہا ہے اور اُس کے بعد قرآن اللّٰہ کا جواب ہے۔ اگر ہمّت ہو تو تھوڑا سا ترجمہ پہلے سے سمجھ لیں جس سے اس میں آسانی ہو جاتی ہے۔

قرآن میں سپاروں کی تقسیم نبی نے نہیں کروائی تھی اور نا ہی صحابہ کرام نے۔ جتنے بھی قرآن کے قدیم نسخے ہیں ان میں ایسی کوئی چیز نہیں۔ یہ تو بعد میں لوگوں کی تلاوت کی سپیڈ سیٹ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس وقت کے علماء نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ فاتحہ ایک دعا ہے اور باقی سورتیں اس کا جواب۔

کیا انگریزی میں اللّٰہ لکھنا چاہیے یا گاڈ

وٹس ایپ پر ایک سرکلر گردش کر رہا ہے جس میں لکھا ہے کہ حکومت اب انگیزی نصابی کتابوں میں انگریزی لفظ گاڈ (God) کے بجائے لفظ اللّٰہ (Allah) استعمال کرے۔ اسی طرح موسک (mosque) کی جگہ مسجد (masjid)، پروفٹ (prophet) کی جگہ نبی (nabi) وغیرہ۔ مجھے شک ہی ہے کہ یہ سرکلر مستند ہو گا، میرے پاس اس کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں مگر چونکہ یہ جذبات اور بھی طریقوں سے اسلامی معاشروں میں ظاہر ہوتے ہیں، میں آج اس موضوع کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔

وٹس ایپ پر گردش کرتا ہوا نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ایک سرکلر

کچھ ٹی وی پر آنے والی دینی شخصیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ اللّٰہ اور گاڈ میں بہرحال فرق ہے اور پھر وہ دلیل میں سورہ اخلاص پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے صرف اسی ہستی کو اللّٰہ کہا جا سکتا ہے جس میں اس سورہ کی بیان کردہ صفات پائی جاتی ہوں اور یہ کہ گاڈ میں یہ صفات نہیں، اس لیے اس کے لیے اللّٰہ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ملیشیا کی حکومت نے تو کچھ سال پہلے غیر مسلمانوں کا لفظ اللّٰہ استعمال کرنا غیر قانونی ٹھرا دیا تھا اور ان کی کتابیں اور صحیفے ضبط کر لیے تھے۔ پھر ان کے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ غیر مسلمان بھی اس لفظ کو استعمال کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اس لفظ کی تاریخ دیکھیں تو یہ نبی کے وقت سے بھی پہلے سے مستعمل ہے، قرآن مجید میں بھی اس کی بیشتر مثالیں موجود ہیں۔ مثلا حضرت سلیمان نے ملکہ سبا کے نام جو خط لکھا وہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید مشرکین کے بارے میں بتاتا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں تو وہ کہتے تھے کہ وہ بت انہیں اللّٰہ کے قریب کرتے ہیں۔ اسی طرح عیسائی کہتے تھے کہ نعوذبااللّٰہ حضرت عیسی اللّٰہ کے بیٹے ہیں۔

نبی کے زمانے میں تورات اور انجیل بھی عربی میں موجود تھیں جو عرب اہل کتاب پڑھتے تھے، اس میں بھی لفظ اللّٰہ ہی استعمال ہوتا تھا جس نے زمین اور آسمان بنائے، اور انسان کو پیدا کیا۔ اسی اللّٰہ نے وعدہ کیا تھا نبی اکرم کو بھیجنے کا۔ آخر اگر کوئی اور خدا یہ وعدہ کرتا تو نبی عربوں کو یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ ایک اور نبی کا وعدہ انہی کے خدا نے کیا تھا؟

پھر اسی اللّٰہ نے قرآن میں اہل کتاب کے عقیدوں کو چیلنج کیا اور بتایا کہ اس نے حضرت عیسی کو اپنا بیٹا نہیں لیا۔ اسی اللّٰہ نے کہا کہ اس نے کسی کو بھی جنت کی گارنٹی نہیں دی۔ چاہے کوئی اپنے آپ کو یہودی کہے، عیسائی کہے، یا مسلمان کہے، اس کے جنت میں جانے کا دارومدار مشرکین اور اہل کتاب کے اللّٰہ کی وحدانیت پر ایمان ہے، آخرت پر ایمان ہے اور اعمال صالحہ ہیں۔ ایسے ہی مشرکین کو بھی چیلنج کیا جو بتوں کے ذریعے اللّٰہ تک پہنچنے کے لئے ان کی پوجا کرتے تھے اور بتایا کہ بتوں کو چھوڑ کر صرف اسی اللّٰہ کی عبادت کی جائے۔

ہر زبان میں اللّٰہ کے لیے کچھ الفاظ مستعمل ہیں، مثلا انگریزی میں God، جرمن میں Gott وغیرہ۔ ہم ان زبانوں میں بھی اللّٰہ کا لفظ استعمال کر کے غیر مسلمانوں کو کنفیوز کر دیتے ہیں اور اس طرح ہم اللّٰہ کو خاص اسلام کے ساتھ جوڑ کر ان سب زبان بولنے والوں کے لیے ایک آڑ کھڑی کر دیتے ہیں۔ ہمارے لٹریچر میں اگر ہم اُس زبان کے رائج الفاظ استعمال کریں گے تب ہی اُس کے پڑھنے والوں کو پتا چلے گا کہ بحث ان کے عقیدوں کے بارے میں ہے۔ ورنہ وہ یہی سمجھیں گے کہ شاید مسلمانوں کا خدا کوئی اور ہی ہے۔

یہ میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ میں امریکا میں کسی چرچ میں اسلام کے اوپر ایک پریزینٹیشن کر رہا تھا جب کسی نے آڈیینس میں سے کہا “آئی ہیو اے کوئسچن آباؤٹ یوئر اللہ۔” (I have a question about your Allah) مجھے چند منٹ ان کو یہ بتانے میں لگے کہ یہ ان کا بھی خدا ہے جسے گاڈ کہتے ہیں لیکن مجھے لگا انہیں یقین نہیں آیا۔ یہی ماجرا دوسرے الفاظ کا بھی ہے۔

اہل عرب الرحمان سے کس کو مراد لیتے تھے؟

کھاؤ ابھی خدا کے رزق سے اور سیر ہو جاؤ
تمھارے کل کے رزق کا ذمہ تو الرحمان پرہے

یہ حاتم الطائی کے ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے۔ حاتم الطائی اسلام سے پہلے کا ایک عرب شاعر تھا جو اپنی فیّاضی کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ اگر مہمان گھر آجاتا اور اس کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اپنا ذاتی مویشی بھی بچھاڑ کر مہمان نوازی کرتا۔

یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب اللّٰہ کو الرحمان کے نام سے جانتے تھے۔ نا صرف یہ بلکہ یہ شعر تو الرحمان پر بے انتہا توکل کی بھی دلیل ہے۔

یہ شعر میں نے عبد الحمید الفراھی کی کتاب ”مفردات القرآن“ سے لیا ہے۔ وہ برصغیر کے بہت معتبر اور فاضل علماء میں آتے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں قرآن کے مشکل الفاظ کے اوپر اپنی تحقیق بیان کی ہے۔ میں ان کی کتاب میں سے لفظ الرحمان سے متعلق لکھی گئی چند سطروں کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ (ترجمے میں کوئی کمی بیشی ہوگئ ہو تو اس کے لیے میں پیشگی معافی کا طالب ہوں۔)

”یہ لفظ خاص رب عظیم کے لئے مخصوص ہے۔ عرب اس بات سے آشنا تھے اور وہ اللّٰہ کے علاوہ کسی اور کا نام اس سے نہیں رکھتے تھے سِوائے ”رحمان الیمامہ“ کے لیکن وہ بغیر الف لام کے تھا۔ تو وہ لفظ ”الرحمان“ سے کسی اور کو نہیں پکارتے تھے سواۓ اللّٰہ تعالی کے۔ یہ (لفظ) اسم الذات کے قریب ہے۔“ (اس پیرے میں اسم الذات سے مراد وہ نام ہوتے ہیں جن سے کسی کی پہچان کی جاسکے۔)

پھر وہ لکھتے ہیں: ”اکثر لوگ اس کے برعکس سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عرب اس نام سے اللّٰہ کو نہیں جانتے تھے۔“

قدیم عربی رسم الخط

کل دبئی کی محمد بن راشد لائبریری جانے کا اتفاق ہوا۔ اُس کی ساتویں منزل پر ایک نمائش ہے جس میں قدیم قرآنی صحیفے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن میں یا تو نقطے ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو ان جگہوں پر نہیں جہاں آج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً

محمد بن راشد لائبریری میں لگا ہوا کوفی خط میں لکھا ہوا چوتھی صدی کا ایک نسخہ جس میں بسملہ اور سورہ المطففین کی شروع کی آیات ہیں۔

اگر آپ غور سے دیکھیں تو اِس کی پہلی لائن میں بسملہ ہے جِس کی ب کے نیچے کوئی نقطہ نہیں۔ الرحیم دوسری لائن میں ہے اور اس کی ی کے نیچے بھی نقطے نہیں ہیں۔ لیکن آپ کو بسملہ کی م کے نیچے اور اللّٰہ کی ہ کے نیچے لال نقطے دکھائی دیں گے۔

اِس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کے زمانے میں حرفوں کے اوپر نقطے ہوتے ہی نہیں تھے اور ایک ہی شکل کے حروف (جیسے کہ ب، ت، ث) ایک ہی حرف (مثلاً ٮ) سے لکھے جاتے تھے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ پھر عرب لفظ سمجھ کیسے لیتے تھے کیوں کہ اس طرح تو کنفیوژن ہو سکتی ہے؟ ایک مثال سے اس کا جواب دینا زیادہ آسان ہے۔ میں اردو کا ایک جملہ بغیر نقطوں کے لکھ رہا ہوں، آپ اِس کو پڑھنے کی پوری کوشش کریں اور باقی آرٹیکل اس کے بعد پڑھیں۔

مٮرا ٮاٮ آح ٮہٮ ٮٮمار ٮٮے

آپ نے جان ہی لیا ہو گا کہ جملہ یہ ہے: میرا باپ آج بہت بیمار ہے حالانکہ باپ کو آپ باب یا ٹاٹ یا پات یا یاب وغیرہ بھی پڑھ سکتے تھے اور بیمار کو بھی کچھ اور پڑھ سکتے تھے لیکن کیوں کہ آپ اہل زبان ہیں آپ کو یہ مشکل نہیں ہوئی۔ میرا ٹاٹ یا میرا باب کے ساتھ بیمار ہونا مناسب نہیں ہے۔ یہ مشکل ہمیں عربی میں اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ ہمیں مطلب سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔ عربوں کو بھی اس ہی طرح اہل زبان ہونے کی آسانی تھی، وہ انکی اپنی مادری زبان تھی اِس لیے وہ ایسے اسکرپٹ کو آرام سے سمجھ لیتے تھے۔ عربی میں ملنے والی قدیم انسکرپشنز بھی ایسے ہی بغیر نقطوں اور بغیر حرکات (یعنی زبر، زیر، پیش وغیرہ) کے لکھی ہوئی ہیں۔

جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا اور قرآن پڑھنے والے وہ لوگ زیادہ ہو گئے جن کو عربی نہیں آتی تھی، ان کے لیے قرآن کی قراءت آسان کرنے کے لئے قرآن کے اسکرپٹ میں نقطے ڈال دیئے گئے۔ اور یہ کام مختلف علاقوں میں ہو رہا تھا اس لیے مختلف جگہوں میں مختلف طریقوں سے نقطوں کا استعمال کیا گیا۔

قرآن کے چوتھی صدی کے ایک نسخے کی پہلی دو سطریں۔

جس قرآن کے صفحے کی میں نے شروع میں تصویر ڈالی ہے، اس کی پہلی دو لائنوں (اوپر کی تصویر) کے نقطے اگر آپ دیکھیں تو وہ م اور ہ کے نیچے ہیں۔ یہ اصل میں زیر کا کام دے رہے ہیں تا کہ پڑھنے والے کو پتا چال جائے کہ وہ بسمِ اللهِ پڑھے اور الرحيمِ پڑھے۔

دوسری لائن کا آخری لفظ وئل ہے جس میں ل کے اوپر دو نقطے ہیں۔ یہ دو پیش کے لیے ہیں تا کہ پڑھنے والا اس کو ويلٌ پڑھے۔وقت کے ساتھ ساتھ قرآن میں نقطوں اور حرکات (یعنی زبر، زیر، پیش وغیرہ) کے اِستعمال کا اسٹینڈرڈ بن گیا اور اب ماڈرن قرآن سارے کے سارے تقریباً ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں۔