نیا سال نا مبارک

ویسے تو ہماری روایات کے مطابق مجھے کہنا چاہیے کہ نیا سال مبارک ہو لیکن سمجھ نہیں آتی کہ مبارک کس چیز کی۔ مطلب ایک اور تاریخ ہی بدلی ہے بس۔ اور دنیا ایک سال بعد اپنے مدارپر اُس ہی جگہ جا پہنچی ہے جہاں ایک سال پہلے تھی۔ لیکن یہ تو کل بھی ہوا تھا اور کل بھی ہو گا۔

سورہ انشقاق میں ہے ”اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف بڑھ رہا ہے پھر اس سے ہی جا ملے گا۔“ یعنی ہم اللّٰہ کی طرف نا چاہتے ہوئے بڑھ رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہر روز جاری رہے گا۔ روزانہ کے زندگی کے مسائل ہیں، جذبات ہیں، خوشی اور غم کے موقعے ہیں، کچھ نیکیاں ہیں، کچھ غلطیاں ہے اور آخرت کی تیاری کے لیے ہمارے کیے ہوئے فیصلے ہیں۔ نیا سال مبارک یا سالگرہ پر ہیپی برتھڈے کہہ کر ہم اس اصل حقیقت کو کچھ دبا سا دیتے ہیں اور وقت کی قدر کی تصغیر کر دیتے ہیں۔ یک دم سال بس یوں ہی گزر گیا؟

بہرحال اگر سیارہ زمین کو مبارک باد دینی ہو تو اس کا تو پھر بھی کوئی محل نکل سکتا ہے، آخر وہ پورا سال گھوما ہے پر آپ میں ایک دوسرے کو مبارک دیں، یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اور اوپر سے ابھی فائرورکس بھی ہونگے، شرابیوں کو بہانہ ملے گا پھر بِلاوجہ شراب پینے کا، کوئی پارٹی کرنے جائے گا اور بہت سے ممالک میں عام تعطیل ہو گی کیوں کہ اگلے دن اِن سب حرکتوں سے ریکوری کرنی ہوگی۔ تو میرے لیے پھر تو نیا سال نا مبارک پلیز۔

نرگس کون تھی؟

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

لگتا ہے کہ شاید شاعرکی نرگس سے کوئی رفاقت تھی جو اتنے دردمندانہ انداز میں اُس کی تکلیف کا ذکر کیا ہے۔ غالباً اندھی تھی جو بیٹھ کر اپنی بے نوری کو روتی رہی۔ اگر کوئی دینی لیکچر سن لیتی توغم بھی کم ہو جاتا، وقت بھی کٹ جاتا اور آخرت بھی سنور جاتی۔

ہزار سال کہہ کر شاعر نے زیادہ ہی چھوڑ دی ہے۔ اصل میں سال دو سال کا بھی قصہ نہیں ہوگا۔ سنا ہے شاعر نشے میں لت پت کچھ بھی کر بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ تو کسی خاتون کا قتل بھی کر دیا اور انگلستان بھاگنا پڑگیا۔ ویسے کیا زمانہ تھا، اب تو پوری قوم قتل کیے بغیر صاف ریکارڈ کے باوجود بھی انگلستان کی امیگریشن کو ترستی ہے پر کامیابی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔

ویسے علامہ اقبال کے بارے میں یہ ساری باتیں گڑھی ہوئی لگتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے حریفوں نے یہ شوشہ چھوڑا تھا اور ہماری عوام کو گپوں کا شوق تو ہے ہی سو بات پھیل گئی۔ اور یہ بھی بَونگی ہے کہ انگریز جو ہندوستان اور انگلستان دونوں میں قانون نافذ کر رہے تھے انھوں نےسوچا کہ بچہ اسمارٹ ہے، اسے جرم کر کے ہندوستان سے بھاگنا آتا ہے اس لیے انگلستان میں چھوڑ دیتے ہیں، یقیناً ہماری کسی لڑکی کو یہاں تنگ نہیں کرے گا۔

پہلے مصرعے کا دوسرے سے کوئی تعلق بھی نہیں سمجھ آتا۔ مطلب یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ نرگس روزانہ چمن میں پودوں کو پانی دیتی ہوگی اور بینائی نہ ہونے کے سبب غلط ملط دے دیتی ہوگی اس لیے پودے نہیں اُگ رہے تھے پر یہ نہیں سمجھ آتا کہ دیدہ ور کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور وہ بھی چمن میں۔ یا پھر جو ایک آدھ پودا نکل ہی آیا تو نالائق نرگس نے اُسی کا نام دیدہ ور رکھ دیا ہوگا۔

یہ بھی ایک مُعمّہ ہے کہ آٹھویں کے بچے قائداعظم پر تقریر کرنے سے پہلے یہ شعر پڑھ کر اظہار تعزیت کیوں کرتے ہیں اور علامہ پر تقریر سے پہلے کیوں نہیں کرتے جبکہ نرگس اُن کی رفیق تھی۔ اِن دلائل کی روشنی میں واضح ہوا کہ

سال دو سال نرگس اپنی بے نوری پہ روئی تھی
بڑی مشکل سے ہوا تھا چمن میں پودا اِک پیدا

قدیم عربی رسم الخط

کل دبئی کی محمد بن راشد لائبریری جانے کا اتفاق ہوا۔ اُس کی ساتویں منزل پر ایک نمائش ہے جس میں قدیم قرآنی صحیفے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن میں یا تو نقطے ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو ان جگہوں پر نہیں جہاں آج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً

محمد بن راشد لائبریری میں لگا ہوا کوفی خط میں لکھا ہوا چوتھی صدی کا ایک نسخہ جس میں بسملہ اور سورہ المطففین کی شروع کی آیات ہیں۔

اگر آپ غور سے دیکھیں تو اِس کی پہلی لائن میں بسملہ ہے جِس کی ب کے نیچے کوئی نقطہ نہیں۔ الرحیم دوسری لائن میں ہے اور اس کی ی کے نیچے بھی نقطے نہیں ہیں۔ لیکن آپ کو بسملہ کی م کے نیچے اور اللّٰہ کی ہ کے نیچے لال نقطے دکھائی دیں گے۔

اِس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کے زمانے میں حرفوں کے اوپر نقطے ہوتے ہی نہیں تھے اور ایک ہی شکل کے حروف (جیسے کہ ب، ت، ث) ایک ہی حرف (مثلاً ٮ) سے لکھے جاتے تھے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ پھر عرب لفظ سمجھ کیسے لیتے تھے کیوں کہ اس طرح تو کنفیوژن ہو سکتی ہے؟ ایک مثال سے اس کا جواب دینا زیادہ آسان ہے۔ میں اردو کا ایک جملہ بغیر نقطوں کے لکھ رہا ہوں، آپ اِس کو پڑھنے کی پوری کوشش کریں اور باقی آرٹیکل اس کے بعد پڑھیں۔

مٮرا ٮاٮ آح ٮہٮ ٮٮمار ٮٮے

آپ نے جان ہی لیا ہو گا کہ جملہ یہ ہے: میرا باپ آج بہت بیمار ہے حالانکہ باپ کو آپ باب یا ٹاٹ یا پات یا یاب وغیرہ بھی پڑھ سکتے تھے اور بیمار کو بھی کچھ اور پڑھ سکتے تھے لیکن کیوں کہ آپ اہل زبان ہیں آپ کو یہ مشکل نہیں ہوئی۔ میرا ٹاٹ یا میرا باب کے ساتھ بیمار ہونا مناسب نہیں ہے۔ یہ مشکل ہمیں عربی میں اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ ہمیں مطلب سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔ عربوں کو بھی اس ہی طرح اہل زبان ہونے کی آسانی تھی، وہ انکی اپنی مادری زبان تھی اِس لیے وہ ایسے اسکرپٹ کو آرام سے سمجھ لیتے تھے۔ عربی میں ملنے والی قدیم انسکرپشنز بھی ایسے ہی بغیر نقطوں اور بغیر حرکات (یعنی زبر، زیر، پیش وغیرہ) کے لکھی ہوئی ہیں۔

جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا اور قرآن پڑھنے والے وہ لوگ زیادہ ہو گئے جن کو عربی نہیں آتی تھی، ان کے لیے قرآن کی قراءت آسان کرنے کے لئے قرآن کے اسکرپٹ میں نقطے ڈال دیئے گئے۔ اور یہ کام مختلف علاقوں میں ہو رہا تھا اس لیے مختلف جگہوں میں مختلف طریقوں سے نقطوں کا استعمال کیا گیا۔

قرآن کے چوتھی صدی کے ایک نسخے کی پہلی دو سطریں۔

جس قرآن کے صفحے کی میں نے شروع میں تصویر ڈالی ہے، اس کی پہلی دو لائنوں (اوپر کی تصویر) کے نقطے اگر آپ دیکھیں تو وہ م اور ہ کے نیچے ہیں۔ یہ اصل میں زیر کا کام دے رہے ہیں تا کہ پڑھنے والے کو پتا چال جائے کہ وہ بسمِ اللهِ پڑھے اور الرحيمِ پڑھے۔

دوسری لائن کا آخری لفظ وئل ہے جس میں ل کے اوپر دو نقطے ہیں۔ یہ دو پیش کے لیے ہیں تا کہ پڑھنے والا اس کو ويلٌ پڑھے۔وقت کے ساتھ ساتھ قرآن میں نقطوں اور حرکات (یعنی زبر، زیر، پیش وغیرہ) کے اِستعمال کا اسٹینڈرڈ بن گیا اور اب ماڈرن قرآن سارے کے سارے تقریباً ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں۔

مورخ تاریخ لکھتا ہے

میری رہائش آجکل دبئی میں ہے۔ یہاں جرائم بالکل بھی نہیں ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے کی یاد آجاتی ہے۔ اُن دنوں رات کے نو بجے خبرنامہ آتا تھا جس میں ملک اور فوج کی ترقی پر بھرپور مبالغہ آرائی کی جاتی تھی۔ اگرکسی جرم کا ذکر ہوتا تو بتایا جاتا کہ کس طرح حکومتی اداروں نے جھٹ مجرموں کو پکڑا اور پٹ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ گویا کہ شہنشاہ کے عہد میں انصاف کا دور دورہ تھا، شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔

اس مبالغہ آرائی کی روایت کو اب بھی ہماری حکومت کے کئی اِداروں نے، چلیں یوں کہہ لیں کہ ایک دو اعلیٰ اداروں نے، قائم رکھا ہوا ہے۔ البتہ باقی قوم بھول گئی ہے اور خاص طور پر ٹی وی والوں کو تو یہ میمورانڈم ملا ہی نہیں۔ اگر آپ نے چیک کرنا ہو کہ آپ کا جسم کتنا زیادہ بلڈ پریشر برداشت کرسکتا ہے تو ٹی وی لگا لیں۔ چند منٹوں میں آر یا پار۔ آپ کو نہ سہی آپکے گھر والوں کو تو پتہ چل ہی جائے گا کہ آپ کتنی دیر برداشت کر سکے۔

ضیاء کے زمانے کے ذکر سے دوست کی بھیجی ہوئی پی ٹی وی کی ایک پرانی مزاحیہ ویڈیو یاد آگئی۔ آپ بھی دیکھیں:

میرے بلاگ پر خوش آمدید

میرے پاس یہ ویب سائٹ بڑے عرصے سے پڑی ہوئی تھی تو میں نے سوچا کیوں نا اس کو استعمال میں لایا جائے۔ پھر اگلا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ کیسے لایا جائے تو میں نے سوچا اس پر کچھ بے کار باتیں لکھ دی جائیں تاکہ خوامخواہ آپ کا وقت ضائع ہو۔ آخر آپ اس ویب سائٹ پر آئے ہی کیوں؟

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر کیوں وقت برباد ہوگا؟ دیکھیں اس میں کچھ طنز ومزاح کا ارادہ ہے اور ساتھ ساتھ مفت مشورے بانٹنے کا بھی۔ میں مفت مشوروں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ تجربے سے ثابت ہے کہ اکثر وہ لوگ اُن باتوں کے بارے میں مفت مشورے دیتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم ہی نہ ہو۔ ڈاکٹر، آرکٹیکٹ، پروفیسر، وغیرہ سب مشورہ دینے کے پیسے لیتے ہیں کیوں کہ ان کو اپنے ہنر کے بارے میں کچھ نا کچھ معلومات تو ہوتی ہی ہیں چاہے کتنی ہی بھونڈی کیوں نا ہوں۔

اس لیے میرا ماننا یہ ہے کہ جو مجھے بغیر مانگے مشورہ دے رہا ہے اسکو مجھے پیسے بھی دینے چاہییں۔ کاش کہ ایسا ہوتا تو آج میں سائیڈ پر کافی آمدنی کما لیتا۔ آخر میرا وقت بھی قیمتی ہے اور مجھے اپنے دماغ سے ایسے فضول مشورے نکالنے بھی پڑیں گے۔ اس کے علاوہ وقتی اذیت علیحدہ۔ اس لیے مجھے شدید تعجب ہے کہ آپ میرا بلاگ پڑ رہے ہیں جس پر میں آپ کو مفت مشورے دوں گا۔ لیکن میں آپ کو کوئی معاوضہ دینے والا نہیں اور میرے بلاگ سے آپ کا کوئی نقصان ہوا تو میں اس کا ذمہ دار نہیں۔

جہاں تک رہا تعلق طنز کا تو اس میں کوئی کمال نہیں۔ ہمارا پورا ملک ہی اس کام میں دن رات محنت کر رہا ہے۔ اگر میں نے کوئی اٹکل کے تِیر تُکّے چلا لیے تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ باقی رہا مزاح تو وہ آپ نے خود بنانا ہے۔ آپکے ذہن کا ہی کمال ہے، جتنا خرچ کریں گے اتنا ہی مزہ آئے گا۔