نرگس کون تھی؟

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

لگتا ہے کہ شاید شاعرکی نرگس سے کوئی رفاقت تھی جو اتنے دردمندانہ انداز میں اُس کی تکلیف کا ذکر کیا ہے۔ غالباً اندھی تھی جو بیٹھ کر اپنی بے نوری کو روتی رہی۔ اگر کوئی دینی لیکچر سن لیتی توغم بھی کم ہو جاتا، وقت بھی کٹ جاتا اور آخرت بھی سنور جاتی۔

ہزار سال کہہ کر شاعر نے زیادہ ہی چھوڑ دی ہے۔ اصل میں سال دو سال کا بھی قصہ نہیں ہوگا۔ سنا ہے شاعر نشے میں لت پت کچھ بھی کر بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ تو کسی خاتون کا قتل بھی کر دیا اور انگلستان بھاگنا پڑگیا۔ ویسے کیا زمانہ تھا، اب تو پوری قوم قتل کیے بغیر صاف ریکارڈ کے باوجود بھی انگلستان کی امیگریشن کو ترستی ہے پر کامیابی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔

ویسے علامہ اقبال کے بارے میں یہ ساری باتیں گڑھی ہوئی لگتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے حریفوں نے یہ شوشہ چھوڑا تھا اور ہماری عوام کو گپوں کا شوق تو ہے ہی سو بات پھیل گئی۔ اور یہ بھی بَونگی ہے کہ انگریز جو ہندوستان اور انگلستان دونوں میں قانون نافذ کر رہے تھے انھوں نےسوچا کہ بچہ اسمارٹ ہے، اسے جرم کر کے ہندوستان سے بھاگنا آتا ہے اس لیے انگلستان میں چھوڑ دیتے ہیں، یقیناً ہماری کسی لڑکی کو یہاں تنگ نہیں کرے گا۔

پہلے مصرعے کا دوسرے سے کوئی تعلق بھی نہیں سمجھ آتا۔ مطلب یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ نرگس روزانہ چمن میں پودوں کو پانی دیتی ہوگی اور بینائی نہ ہونے کے سبب غلط ملط دے دیتی ہوگی اس لیے پودے نہیں اُگ رہے تھے پر یہ نہیں سمجھ آتا کہ دیدہ ور کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور وہ بھی چمن میں۔ یا پھر جو ایک آدھ پودا نکل ہی آیا تو نالائق نرگس نے اُسی کا نام دیدہ ور رکھ دیا ہوگا۔

یہ بھی ایک مُعمّہ ہے کہ آٹھویں کے بچے قائداعظم پر تقریر کرنے سے پہلے یہ شعر پڑھ کر اظہار تعزیت کیوں کرتے ہیں اور علامہ پر تقریر سے پہلے کیوں نہیں کرتے جبکہ نرگس اُن کی رفیق تھی۔ اِن دلائل کی روشنی میں واضح ہوا کہ

سال دو سال نرگس اپنی بے نوری پہ روئی تھی
بڑی مشکل سے ہوا تھا چمن میں پودا اِک پیدا