سوره فاتحہ پہلے سپارے میں کیوں نہیں ہے؟

پہلا سپارہ الم ہے جو سورہ بقرہ کی پہلی آیت سے شروع ہوتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سورہ فاتحہ کس سپارے میں ہے؟ اور اگر کسی بھی سپارے میں نہیں ہے تو کیوں نہیں؟

سورہ فاتحہ حقیقتاً کسی سپارے میں بھی نہیں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللّٰہ تعالٰی سے ایک دعا ہے جس میں اِس دنیا اور آخرت کے خالق سے دعا مانگی جاتی ہے کہ ہمیں ہدایت پر چلا اور آخرت میں کامیاب ہونے کی ریسپی بتا۔ اور ہمیں اِس دعا کی اتنی ضرورت ہے کہ ہم ہر نماز میں یہ دعا کئی دفعہ مانگتے ہیں۔ ہم سے پہلے نبی اور صحابہ کرام بھی یہی کرتے تھے!

پھر تیس کے تیس سپارے اس دعا کا جواب ہیں۔ وہ اللّٰہ تعالٰی کا ہم سے خطاب ہے جس میں بہت سے موضوع مختلف پہلوؤں سے سمجھائے جاتے ہیں۔ اور ہم ان سورتوں کی آیات نماز میں بھی فاتحہ کے بعد پڑھتے ہیں یعنی نماز میں بھی دعا ہے اور پھر تیس سپاروں میں سے جواب۔ اور پھر ہم اللّٰہ کے سامنے جھک جاتے ہیں۔

یہ نماز پر کانسنٹریٹ کرنے کا بھی اچھا طریقہ ہے کہ انسان سمجھے کہ وہ اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہے اور فاتحہ میں دعا کر رہا ہے اور اُس کے بعد قرآن اللّٰہ کا جواب ہے۔ اگر ہمّت ہو تو تھوڑا سا ترجمہ پہلے سے سمجھ لیں جس سے اس میں آسانی ہو جاتی ہے۔

قرآن میں سپاروں کی تقسیم نبی نے نہیں کروائی تھی اور نا ہی صحابہ کرام نے۔ جتنے بھی قرآن کے قدیم نسخے ہیں ان میں ایسی کوئی چیز نہیں۔ یہ تو بعد میں لوگوں کی تلاوت کی سپیڈ سیٹ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس وقت کے علماء نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ فاتحہ ایک دعا ہے اور باقی سورتیں اس کا جواب۔

اصلی تشریح: تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے

یہ تابش کانپوری کی ایک مشہور غزل ہے، اگر آپ نے پہلے کبھی نہیں پڑھی، تو میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کو پہلے ریختہ پر پڑھ لیں۔

آج کے نوجوان اور وہ عمر رسیدہ لوگ جو اپنے آپ کو ابھی بھی نوجوان سمجھتے ہیں، وه اِس غزل کا مضمون صرف عشق اور عاشقی سمجھتے ہیں۔ اُن کو اِس کا اصل مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔ یہ غزل تو اصلاً شادی اور زندگی کے مختلف مراحل بیان کرتی ہے اور نوجوانوں کو اُن کے مستقبل کے بارے میں ایک پشین گوئی دیتی ہے۔ تگڑا دل رکھنے والے چاہیں تو پڑھ لیں اور اپنا مستقبل بچا لیں!

پہلا شعر تو ذرا آسان ہے، منگنی ہو چکی ہے اور لڑکا کہیں دور بلکہ ہو سکتا ہے بیرون ملک جیسے آسٹریلیا یا امریکا کام کرتا ہے۔ لڑکا اور اُس کی ہونے والی بیوی شاید دونوں ہی اِس کیفیت میں مبتلا ہوں۔

تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
کوئی   اتنا   تو   آ کر   بتا دے   مجھے   جب   تری   یاد   آئے   تو  میں   کیا   کروں

آگے آنے والے شعر کا پس منظر یہ ہے کہ شادی کو آٹھ دس سال ہو چکے ہیں، دو تین بچے ہیں، ایک اپنے ابو کے کندھے پر چڑھا ہوا ہے، دوسرا اس کی آنکھ پھوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابو جی کو کوئی ہوش نہیں۔ اور تیسرا سب سے چھوٹا ابھی نیپی میں ہی ہے جو کہ وہ قالین پر کھول رہا ہے۔ امی جی کچن میں کچھ کر رہی ہیں اور جب یہ سب گند ہوتا ہے اور امی نمودار ہو کر چکلا بیلنا بچے پر پھینکتی ہیں تو وہ ابو جی کے سر پر لینڈ کرتا ہے اور وہ سیدھا فرش پر ”خاک نشیمن کو بوسہ دیتے ہیں“۔ بجلی گر چکی ہے۔

میں نے خاک نشیمن کو بوسے دیے اور یہ کہہ کے بھی دل کو سمجھا لیا
آشیانہ    بنانا    مرا    کام    تھا     کوئی     بجلی     گرائے     تو    میں    کیا    کروں

میاں سوچتا ہے کہ وہ اس بجلی زدہ مکان سے کوئی اسکیپ ڈھونڈے تو وہ کوئی کار ریلی کا یا دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کی سیر کا پلان بناتا ہے۔ پر بیوی آڑ کی طرح سامنے کھڑی ہے، ”یہ اپنے بچے میرے سر پر چھوڑ کر تم عیاشیاں کرنے جا رہے ہو؟“ میاں پھر کوشش کرتا ہے کہ کام کا بہانہ بنا کر چین یا دبئی وغیرہ ہی چلا جائے، لیکن یہ اسکیم بھی بیگم فیل کر دیتی ہے۔ لاکھ دعا مانگی پر جو وہ چاہتا ہے وہ ہی نا ملے تو کیا کیجیے۔

میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا  فرض تھا  میں نے پورا کیا  اب خدا ہی نہ چاہے  تو میں کیا کروں

اب میاں چھپ چھپ کر دوستوں سے ملتے ہوئے تھوڑی بہت پینا پلانا شروع کر دیتے ہیں۔ بیوی کو پتا چل گیا اور ظاہری بات ہے کہ حرام کام تھا تو آفت تو آنی تھی۔ تو پہلے تو اپنی صفائی میں کہا کہ وہ بیوی کے لیے پیتے ہیں اور توبہ وغیرہ بھی کی۔ وہ الرحمان ہے، غلطی کا احساس ہو جائے تو معافی تو مانگنی چاہیے۔ پھر اپنے آپ کو تہمت سے بھی بچانے کی کوشش کی۔

شوق   پینے   کا   مجھ   کو   زیادہ   نہ   تھا   ترک   توبہ   کا   کوئی   ارادہ   نہ   تھا
میں شرابی نہیں مجھ کو تہمت نہ دو وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں

لیکن بیوی نہیں مانی تو اگلے شعر میں وہ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اللّٰہ نے تو توبہ کا طریقہ بتا دیا پر بیوی سے معافی ملنا ناممکن لگتا ہے حالانکہ اگر آپ آج کل کی کسی بیوی سے پوچھیں تو وہ کہے گی کہ معافی کا طریقہ ہے اگر کوئی مانگنا چاہے تو!

حسن  اور عشق  دونوں میں تفریق ہے  پر انہیں  دونوں پہ میرا  ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں اور صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں

جیسے جیسے بڑھاپا آتا گیا، میاں کو احساس ہوا کہ پوری زندگی کس کام میں گنوا دی۔ دوستوں کی صحبت تو ایسی نہ تھی کہ کوئی دین وغیرہ کی بات کی جاتی تو میاں جی اُن سے چھپ چھپ کر اللّٰہ کو یاد کرنے لگے۔ ایک دن مسجد گئے تو واپسی پر ایک لنگوٹیے یار نے دیکھ لیا جس کو میاں کی اسکول کی تمام کارستانیاں اچھی طرح یاد تھیں، تو پہلے تو وہ گنوائیں اور پھر خوب مذاق اڑایا، ”تو نماز پڑھ رہا تھا، وہ وقت یاد ہے جب تو …؟“ اور اس کے آگے کوئی لڑکپن کی حرکت کا ذکر۔

ایسے لوگ لگتا ہے کبھی اسکول سے نکلتے ہی نہیں۔ جب ملو وہی پرانی باتیں لے کر شروع۔ خیر میاں کی نیک حرکتوں کا اوروں کو پتا چلا تو مولوی، ملا،پردہ نشین، اور جانے کیا کیا لقب دیے گئے۔ بس ایسے ہی موقعے کے لیے یہ آخری شعر کہا گیا۔

چشم  ساقی  سے پینے  کو  میں  جو  گیا  پارسائی  کا  میری  بھرم کھل گیا
بن رہا ہے جہاں میں تماشا مرا ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں

انا للہ وانا الیہ راجعون

کیا انگریزی میں اللّٰہ لکھنا چاہیے یا گاڈ

وٹس ایپ پر ایک سرکلر گردش کر رہا ہے جس میں لکھا ہے کہ حکومت اب انگیزی نصابی کتابوں میں انگریزی لفظ گاڈ (God) کے بجائے لفظ اللّٰہ (Allah) استعمال کرے۔ اسی طرح موسک (mosque) کی جگہ مسجد (masjid)، پروفٹ (prophet) کی جگہ نبی (nabi) وغیرہ۔ مجھے شک ہی ہے کہ یہ سرکلر مستند ہو گا، میرے پاس اس کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں مگر چونکہ یہ جذبات اور بھی طریقوں سے اسلامی معاشروں میں ظاہر ہوتے ہیں، میں آج اس موضوع کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔

وٹس ایپ پر گردش کرتا ہوا نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ایک سرکلر

کچھ ٹی وی پر آنے والی دینی شخصیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ اللّٰہ اور گاڈ میں بہرحال فرق ہے اور پھر وہ دلیل میں سورہ اخلاص پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے صرف اسی ہستی کو اللّٰہ کہا جا سکتا ہے جس میں اس سورہ کی بیان کردہ صفات پائی جاتی ہوں اور یہ کہ گاڈ میں یہ صفات نہیں، اس لیے اس کے لیے اللّٰہ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ملیشیا کی حکومت نے تو کچھ سال پہلے غیر مسلمانوں کا لفظ اللّٰہ استعمال کرنا غیر قانونی ٹھرا دیا تھا اور ان کی کتابیں اور صحیفے ضبط کر لیے تھے۔ پھر ان کے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ غیر مسلمان بھی اس لفظ کو استعمال کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اس لفظ کی تاریخ دیکھیں تو یہ نبی کے وقت سے بھی پہلے سے مستعمل ہے، قرآن مجید میں بھی اس کی بیشتر مثالیں موجود ہیں۔ مثلا حضرت سلیمان نے ملکہ سبا کے نام جو خط لکھا وہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید مشرکین کے بارے میں بتاتا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں تو وہ کہتے تھے کہ وہ بت انہیں اللّٰہ کے قریب کرتے ہیں۔ اسی طرح عیسائی کہتے تھے کہ نعوذبااللّٰہ حضرت عیسی اللّٰہ کے بیٹے ہیں۔

نبی کے زمانے میں تورات اور انجیل بھی عربی میں موجود تھیں جو عرب اہل کتاب پڑھتے تھے، اس میں بھی لفظ اللّٰہ ہی استعمال ہوتا تھا جس نے زمین اور آسمان بنائے، اور انسان کو پیدا کیا۔ اسی اللّٰہ نے وعدہ کیا تھا نبی اکرم کو بھیجنے کا۔ آخر اگر کوئی اور خدا یہ وعدہ کرتا تو نبی عربوں کو یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ ایک اور نبی کا وعدہ انہی کے خدا نے کیا تھا؟

پھر اسی اللّٰہ نے قرآن میں اہل کتاب کے عقیدوں کو چیلنج کیا اور بتایا کہ اس نے حضرت عیسی کو اپنا بیٹا نہیں لیا۔ اسی اللّٰہ نے کہا کہ اس نے کسی کو بھی جنت کی گارنٹی نہیں دی۔ چاہے کوئی اپنے آپ کو یہودی کہے، عیسائی کہے، یا مسلمان کہے، اس کے جنت میں جانے کا دارومدار مشرکین اور اہل کتاب کے اللّٰہ کی وحدانیت پر ایمان ہے، آخرت پر ایمان ہے اور اعمال صالحہ ہیں۔ ایسے ہی مشرکین کو بھی چیلنج کیا جو بتوں کے ذریعے اللّٰہ تک پہنچنے کے لئے ان کی پوجا کرتے تھے اور بتایا کہ بتوں کو چھوڑ کر صرف اسی اللّٰہ کی عبادت کی جائے۔

ہر زبان میں اللّٰہ کے لیے کچھ الفاظ مستعمل ہیں، مثلا انگریزی میں God، جرمن میں Gott وغیرہ۔ ہم ان زبانوں میں بھی اللّٰہ کا لفظ استعمال کر کے غیر مسلمانوں کو کنفیوز کر دیتے ہیں اور اس طرح ہم اللّٰہ کو خاص اسلام کے ساتھ جوڑ کر ان سب زبان بولنے والوں کے لیے ایک آڑ کھڑی کر دیتے ہیں۔ ہمارے لٹریچر میں اگر ہم اُس زبان کے رائج الفاظ استعمال کریں گے تب ہی اُس کے پڑھنے والوں کو پتا چلے گا کہ بحث ان کے عقیدوں کے بارے میں ہے۔ ورنہ وہ یہی سمجھیں گے کہ شاید مسلمانوں کا خدا کوئی اور ہی ہے۔

یہ میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ میں امریکا میں کسی چرچ میں اسلام کے اوپر ایک پریزینٹیشن کر رہا تھا جب کسی نے آڈیینس میں سے کہا “آئی ہیو اے کوئسچن آباؤٹ یوئر اللہ۔” (I have a question about your Allah) مجھے چند منٹ ان کو یہ بتانے میں لگے کہ یہ ان کا بھی خدا ہے جسے گاڈ کہتے ہیں لیکن مجھے لگا انہیں یقین نہیں آیا۔ یہی ماجرا دوسرے الفاظ کا بھی ہے۔

صحت کی ضامن ٹرالی

ہمارے ہاں کسی رشتہ دار سے محبت دکھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو ٹِکا کر کھانا کھلایا جائے چاہے اس کا پیٹ چیخ چیخ کر معافی مانگے کہ بھائی شاید غلط گھرآگئے۔ ہر وہ چیز جو صحت کے لیے مضر ہو سکتی ہے، آپ کے سامنے ٹرالی میں پیش کی جائے گی اور اس کی وہ تعریف کی جائے گی کہ بنانے والا بھی سن کر دنگ رہ جائے۔ اگر آپ میزبان کے حساب سے کم کھا رہے ہوں گے تو وہ بذات خود آپ کی پلیٹ میں کچھ ڈال دیں گے، یا کم از کم گلہ ضرور کریں گے کہ جو من دو من کھانا آپ کو اونٹ سمجھ کر آپ کے لیے تیار کروایا ہے، آپ اس کی بے حرمتی تو کر ہی رہے ہیں۔

جو ٹرالی آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے، اُس میں چینی سے بھر پور مٹھائیاں، کھیریں، کیک اور انگریزی طرز کے دوسرے لوازمات شامل ہیں۔ اگر ان سے ابھی آپ کا ذیابیطس اور دل کی بیماریاں ہونے کا اِمکان نہ بڑھا تو خالص تیل میں تلے ہوئے پکوڑے، کباب اور کٹلٹس وغیرہ آپ کی نظر کیے جائیں گے۔ ویسے مٹھائی کو تو ڈاکٹرلوگ تمغہ دے سکتے ہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے انکی دکان جتنی چلتی ہے شاید باقی سب کھانا ملا کر بھی اتنی نہ چلتی ہو۔ دیسی گھی سے تیار شدہ میٹھا، واہ جی واہ۔

سب سے دل موہ لینی والی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ اپنی صحت کا پاس رکھتے ہوئے اس کھانے کے خصائص کے بارے میں کچھ ارشاد فرمادیں توآپ کو ہر چیز کی افادیت گنوائی جائے گی۔ چاہے وہ چیزیں آپ کو پسند بھی نہ ہوں، اگر آپ نہیں کھائیں گے تو انھیں لگے کا کہ آپ اپنی جان پرظلم کر رہے ہیں۔

آپ ایک دو کلو کھا بھی لیں پھر بھی”یہ بھی چکھیں نا، آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں۔“ کئی دفعہ تو دل کرتا ہے کہ آج کہہ ہی دوں ”سفید جھوٹ“ پر پھر چپ ہی رہتا ہوں۔

اور بہترین بات تو یہ کہ کچھ میزبان تو دھڑلے سے آپ کو یقین دہانی بھی کرائیں گے کہ پوری سائنس ایک طرف اور ان کی ماہرانہ رائے ایک طرف۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر حکیم کی دی ہوئی پھکی کھائیں اور آپ کو بھی اس کی جارحانہ تجویز دیں، کیوں کہ یہی ہے سارے صحت کے مسائل کا اصلی حل۔

اہل عرب الرحمان سے کس کو مراد لیتے تھے؟

کھاؤ ابھی خدا کے رزق سے اور سیر ہو جاؤ
تمھارے کل کے رزق کا ذمہ تو الرحمان پرہے

یہ حاتم الطائی کے ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے۔ حاتم الطائی اسلام سے پہلے کا ایک عرب شاعر تھا جو اپنی فیّاضی کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ اگر مہمان گھر آجاتا اور اس کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اپنا ذاتی مویشی بھی بچھاڑ کر مہمان نوازی کرتا۔

یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب اللّٰہ کو الرحمان کے نام سے جانتے تھے۔ نا صرف یہ بلکہ یہ شعر تو الرحمان پر بے انتہا توکل کی بھی دلیل ہے۔

یہ شعر میں نے عبد الحمید الفراھی کی کتاب ”مفردات القرآن“ سے لیا ہے۔ وہ برصغیر کے بہت معتبر اور فاضل علماء میں آتے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں قرآن کے مشکل الفاظ کے اوپر اپنی تحقیق بیان کی ہے۔ میں ان کی کتاب میں سے لفظ الرحمان سے متعلق لکھی گئی چند سطروں کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ (ترجمے میں کوئی کمی بیشی ہوگئ ہو تو اس کے لیے میں پیشگی معافی کا طالب ہوں۔)

”یہ لفظ خاص رب عظیم کے لئے مخصوص ہے۔ عرب اس بات سے آشنا تھے اور وہ اللّٰہ کے علاوہ کسی اور کا نام اس سے نہیں رکھتے تھے سِوائے ”رحمان الیمامہ“ کے لیکن وہ بغیر الف لام کے تھا۔ تو وہ لفظ ”الرحمان“ سے کسی اور کو نہیں پکارتے تھے سواۓ اللّٰہ تعالی کے۔ یہ (لفظ) اسم الذات کے قریب ہے۔“ (اس پیرے میں اسم الذات سے مراد وہ نام ہوتے ہیں جن سے کسی کی پہچان کی جاسکے۔)

پھر وہ لکھتے ہیں: ”اکثر لوگ اس کے برعکس سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عرب اس نام سے اللّٰہ کو نہیں جانتے تھے۔“

نئے سال کی ایک چھوٹی ریزولوشن

اکثر ہم نئے سال پر بڑی بڑی ریزولوشنز بناتے ہیں۔ میں جِم جاؤں گا، میں اتنا وزن گھٹا لوں گا، روزانہ سیر کروں گا وغیرہ وغیرہ جو احساسِ کمتری میں ہمیں زیادہ دھکیلتی ہیں اور حوصلہ افزائی کم کرتی ہیں۔ ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا راز تو میں آپ کو کسی اور وقت بتاؤں گا، لیکن آج سوچا کہ ایک چھوٹی ریزولوشن کی افادیت بھی گِنوا دینی چاہیے۔

”میں جس کسی سے ملوں گا تو اس کو اس کی شخصیت کی کوئی اچھی بات ضرور بتاؤں گا۔“ یا اگر اس کو نہیں بتا سکتا تو کم از کم اپنے دل میں ہی کہہ لوں گا۔ اس کے بہت سے فائدے ہیں، ایک تو آپ کو اُس کی شخصیت کے نئے پہلو دیکھنے کو ملیں گے، دوسرے باہمی تعلق بہتر ہو گا اور سب سے ضروری یہ کہ حقوق العباد کے حوالے سے آپ کی اخرت بھی سنورے گی۔

اِس پر ممتاز مفتی کا ”تلاش“ میں بیان کیا ہوا ایک قصہ یاد آگیا۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر اُن کا اور اُن کی بیگم کا انٹرویو لے رہے تھے جب مسز ممتاز مفتی نے اپنے میاں پرسخت نکتہ چینی شروع کر دی۔ ایڈیٹر صاحب نے پوچھا کہ ممتاز صاحب میں کوئی تو خوبی ہو گی جس پر وہ بولیں ”اگرکوئی ہوتی تو میں آپ سے کیوں چُھپاتی بھلا!“

بس ہم بھی اکثر ایسے ہی دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں چاہے نا دانستہ طور پر ہی سہی۔ ”وہ دیکھو وہ گنجا ہو گیا“، ”اُس کا پیٹ بہت نکل آیا“، ”یہ کیا بَونگی ماری آپ نے“، اور اس طرح کی بہت سی باتیں کر کے دوسروں کا دل بھی دُکھا دیتے ہیں۔ اکثر لوگ آپ کو نہیں بتائیں گے کہ انہوں نے کیا محسوس کیا۔ میرے چہرے سے بھی آپ کو کبھی نہیں پتا چلے گا کہ مجھے آپ کی بات بُری لگی۔ بس میں دل میں یہ ضرور سوچوں گا کہ آپ چاند پر کیوں تھوک رہے ہیں، کہیں آپ کا لعاب دہن آپ کے مُکھڑے شریف پر ہی واپس لینڈ نہ کر جائے۔ ویسے وہ مرہم کا کام بھی دیتا ہے۔

خیر میرا خیال ہے ایک ریزولوشن تو ہمیں یہ کرنی چاہیے کہ کسی کے بارے میں ہر نیگیٹو بات کرنے سے پہلے ایک پوزیٹو بات کرنی ضروری ہے ورنہ منہ بند۔ اور اس کی گاڑی یا مال یا بچوں وغیرہ کے بارے میں نہیں، اس کی شخصیت کے بارے میں۔ یہ ہمیں اس بندے کی شخصیت کے اچھے پہلو دیکھنے پر مجبور کر دے گا۔ ویسے میں آپ سے کہوں گا کہہ اگر آپ یہ ریزولوشن بنا لیں کہ سِرے سے کوئی نیگیٹو بات کرنی ہی نہیں تو آپ کی کیا ہی بات ہے لیکن پھر وہ ایک بڑی ریزولوشن بن جائے گی اور باقی ریزولیوشنز کی طرح وہ بھی سوا تین ہفتے بعد خلاص۔

آپ کِسی سے بھی ملاقات سے پہلے تھوڑا سا سوچ لیں کہ کیا اچھی بات کہی جا سکتی ہے۔ یہ آسان ہو جاتا ہے اگر آپ ان کے کسی عمل کے متعلق کچھ کہنے کی کوشش کریں مثلاً ”آپ نے پچھلی دفعہ ایک زبردست آئیڈیا دیا تھا، میرا بڑا فائدہ ہوا، اس کا شکریہ“ یا ”آپ نے کتاب بھیجی، آپ کی فراخ دلی سر آنکھوں پر“ وغیرہ۔ اور ان کو اپنے سٹائل اور لینگویج میں کہیں تا کہ جینوئن بات ہو اور آپ کا مذاق بھی نہ اڑے۔

لیکن اگر آپ کو بھی مسز ممتاز مفتی کی طرح کسی شخص کی کوئی بھی خوبی نہ ملے تو کسی مشترکہ دوست یا رشتے دار سے خفیہ طریقے سے دریافت کرلینا چاہیے۔ شاید آپ کی بھی آنکھیں اُس شخصیت کے بارے میں کھل جائیں۔