اہل عرب الرحمان سے کس کو مراد لیتے تھے؟

کھاؤ ابھی خدا کے رزق سے اور سیر ہو جاؤ
تمھارے کل کے رزق کا ذمہ تو الرحمان پرہے

یہ حاتم الطائی کے ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے۔ حاتم الطائی اسلام سے پہلے کا ایک عرب شاعر تھا جو اپنی فیّاضی کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ اگر مہمان گھر آجاتا اور اس کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اپنا ذاتی مویشی بھی بچھاڑ کر مہمان نوازی کرتا۔

یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب اللّٰہ کو الرحمان کے نام سے جانتے تھے۔ نا صرف یہ بلکہ یہ شعر تو الرحمان پر بے انتہا توکل کی بھی دلیل ہے۔

یہ شعر میں نے عبد الحمید الفراھی کی کتاب ”مفردات القرآن“ سے لیا ہے۔ وہ برصغیر کے بہت معتبر اور فاضل علماء میں آتے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں قرآن کے مشکل الفاظ کے اوپر اپنی تحقیق بیان کی ہے۔ میں ان کی کتاب میں سے لفظ الرحمان سے متعلق لکھی گئی چند سطروں کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ (ترجمے میں کوئی کمی بیشی ہوگئ ہو تو اس کے لیے میں پیشگی معافی کا طالب ہوں۔)

”یہ لفظ خاص رب عظیم کے لئے مخصوص ہے۔ عرب اس بات سے آشنا تھے اور وہ اللّٰہ کے علاوہ کسی اور کا نام اس سے نہیں رکھتے تھے سِوائے ”رحمان الیمامہ“ کے لیکن وہ بغیر الف لام کے تھا۔ تو وہ لفظ ”الرحمان“ سے کسی اور کو نہیں پکارتے تھے سواۓ اللّٰہ تعالی کے۔ یہ (لفظ) اسم الذات کے قریب ہے۔“ (اس پیرے میں اسم الذات سے مراد وہ نام ہوتے ہیں جن سے کسی کی پہچان کی جاسکے۔)

پھر وہ لکھتے ہیں: ”اکثر لوگ اس کے برعکس سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عرب اس نام سے اللّٰہ کو نہیں جانتے تھے۔“