کیا انگریزی میں اللّٰہ لکھنا چاہیے یا گاڈ

وٹس ایپ پر ایک سرکلر گردش کر رہا ہے جس میں لکھا ہے کہ حکومت اب انگیزی نصابی کتابوں میں انگریزی لفظ گاڈ (God) کے بجائے لفظ اللّٰہ (Allah) استعمال کرے۔ اسی طرح موسک (mosque) کی جگہ مسجد (masjid)، پروفٹ (prophet) کی جگہ نبی (nabi) وغیرہ۔ مجھے شک ہی ہے کہ یہ سرکلر مستند ہو گا، میرے پاس اس کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں مگر چونکہ یہ جذبات اور بھی طریقوں سے اسلامی معاشروں میں ظاہر ہوتے ہیں، میں آج اس موضوع کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔

وٹس ایپ پر گردش کرتا ہوا نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ایک سرکلر

کچھ ٹی وی پر آنے والی دینی شخصیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ اللّٰہ اور گاڈ میں بہرحال فرق ہے اور پھر وہ دلیل میں سورہ اخلاص پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے صرف اسی ہستی کو اللّٰہ کہا جا سکتا ہے جس میں اس سورہ کی بیان کردہ صفات پائی جاتی ہوں اور یہ کہ گاڈ میں یہ صفات نہیں، اس لیے اس کے لیے اللّٰہ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ملیشیا کی حکومت نے تو کچھ سال پہلے غیر مسلمانوں کا لفظ اللّٰہ استعمال کرنا غیر قانونی ٹھرا دیا تھا اور ان کی کتابیں اور صحیفے ضبط کر لیے تھے۔ پھر ان کے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ غیر مسلمان بھی اس لفظ کو استعمال کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اس لفظ کی تاریخ دیکھیں تو یہ نبی کے وقت سے بھی پہلے سے مستعمل ہے، قرآن مجید میں بھی اس کی بیشتر مثالیں موجود ہیں۔ مثلا حضرت سلیمان نے ملکہ سبا کے نام جو خط لکھا وہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید مشرکین کے بارے میں بتاتا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں تو وہ کہتے تھے کہ وہ بت انہیں اللّٰہ کے قریب کرتے ہیں۔ اسی طرح عیسائی کہتے تھے کہ نعوذبااللّٰہ حضرت عیسی اللّٰہ کے بیٹے ہیں۔

نبی کے زمانے میں تورات اور انجیل بھی عربی میں موجود تھیں جو عرب اہل کتاب پڑھتے تھے، اس میں بھی لفظ اللّٰہ ہی استعمال ہوتا تھا جس نے زمین اور آسمان بنائے، اور انسان کو پیدا کیا۔ اسی اللّٰہ نے وعدہ کیا تھا نبی اکرم کو بھیجنے کا۔ آخر اگر کوئی اور خدا یہ وعدہ کرتا تو نبی عربوں کو یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ ایک اور نبی کا وعدہ انہی کے خدا نے کیا تھا؟

پھر اسی اللّٰہ نے قرآن میں اہل کتاب کے عقیدوں کو چیلنج کیا اور بتایا کہ اس نے حضرت عیسی کو اپنا بیٹا نہیں لیا۔ اسی اللّٰہ نے کہا کہ اس نے کسی کو بھی جنت کی گارنٹی نہیں دی۔ چاہے کوئی اپنے آپ کو یہودی کہے، عیسائی کہے، یا مسلمان کہے، اس کے جنت میں جانے کا دارومدار مشرکین اور اہل کتاب کے اللّٰہ کی وحدانیت پر ایمان ہے، آخرت پر ایمان ہے اور اعمال صالحہ ہیں۔ ایسے ہی مشرکین کو بھی چیلنج کیا جو بتوں کے ذریعے اللّٰہ تک پہنچنے کے لئے ان کی پوجا کرتے تھے اور بتایا کہ بتوں کو چھوڑ کر صرف اسی اللّٰہ کی عبادت کی جائے۔

ہر زبان میں اللّٰہ کے لیے کچھ الفاظ مستعمل ہیں، مثلا انگریزی میں God، جرمن میں Gott وغیرہ۔ ہم ان زبانوں میں بھی اللّٰہ کا لفظ استعمال کر کے غیر مسلمانوں کو کنفیوز کر دیتے ہیں اور اس طرح ہم اللّٰہ کو خاص اسلام کے ساتھ جوڑ کر ان سب زبان بولنے والوں کے لیے ایک آڑ کھڑی کر دیتے ہیں۔ ہمارے لٹریچر میں اگر ہم اُس زبان کے رائج الفاظ استعمال کریں گے تب ہی اُس کے پڑھنے والوں کو پتا چلے گا کہ بحث ان کے عقیدوں کے بارے میں ہے۔ ورنہ وہ یہی سمجھیں گے کہ شاید مسلمانوں کا خدا کوئی اور ہی ہے۔

یہ میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ میں امریکا میں کسی چرچ میں اسلام کے اوپر ایک پریزینٹیشن کر رہا تھا جب کسی نے آڈیینس میں سے کہا “آئی ہیو اے کوئسچن آباؤٹ یوئر اللہ۔” (I have a question about your Allah) مجھے چند منٹ ان کو یہ بتانے میں لگے کہ یہ ان کا بھی خدا ہے جسے گاڈ کہتے ہیں لیکن مجھے لگا انہیں یقین نہیں آیا۔ یہی ماجرا دوسرے الفاظ کا بھی ہے۔